حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسپوٹنیک کے تجزیہ کار عماد آبشناس لکھتا ہے کہ صیہونی لابی سے وابستہ چارلی ہیبڈو عام طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے سازش کرتا ہے اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت سے وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا چاہتا ہے۔
یہاں پر سوال یہ ہوتا ہے کہ فرانس جو مسلمانوں کے احساسات سے آگاہ ہے وہ ان توہین آمیز اقدامات کی روک تھام کیوں نہیں کرتا؟۔
غالبا وہ آزمانا چاہتا ہے کہ مسلمان اس پر کتنا رد عمل دکھاتا ہے اور اور کس طرح سے انکو اقدار سے پسپا کیا جاسکتا ہے، جب افغانستان میں القاعدہ کو بنایا گیا تو بعض عرب ممالک کے علاوہ کسی نے اس پر توجہ نہیں کی تاہم امریکہ کو اندازہ ہوا کہ کسطرح آسانی سے انکو بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔ آج حالات کا تقاضا ہے کہ جب امریکہ کے غلام ممالک اپنے تعلقات واضح کریں اور جس کا آغاز امارات نے کیا اور طے تھا کہ پانچ دیگر عرب ممالک بھی اس صف میں لگ جائے۔بعض عرب ممالک نے بہانہ بنایا کہ انکے عوام مشتعل ہوسکتے ہیں اس لیے وہ پس و پیش سے کام لینے پر مجبور ہیں۔
ان حالات میں چارلی ہیبڈو میں خاکہ چاپ کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ حالات اب بدل گئے ہیں اور مسلمان عوام میں وہ غیرت باقی نہیں رہی ہے۔اگرچہ بعض اسلامی ممالک کے حکمرانوں نے بھی اس مسئلے پر پردہ ڈالنے کی خوب کوشش کی ۔
ہم نے مشاہدہ کیا کہ اگرچہ یورپ اور ایران میں حساس معاملات چل رہے ہیں تاہم ایرانی سپریم لیڈر نے فوری طور پر مذمتی بیان جاری کردیا۔
بہر حال اسلامی ممالک کے عوام جلد یا بدیر حکمرانوں سے سوال ضرور کریں گے کہ وہ اس معاملے پر خاموش کیوں رہے؟۔
عراق میں جب فرانس کے صدر دورے پر آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کرنا چاہتے تھے اور وہ اس کو خوب کوریج دے رہا تھا لیکن توہین آمیز خاکوں کا سن کر آیت اللہ سیستانی نے فوری طور پر اس ملاقات کو اعتراض کے طور پر کینسل کردیا اور فرنچ صدر نے دورے کو طول بھی دیا تاکہ ملاقات ہوسکے تاہم آیت اللہ سیستانی ملاقات سے انکار کردیا۔
کم از کم یہ ہونا چاہیے کہ جب تک فرانس رسمی طور پر اس توہین آمیز اقدام پر معافی نہ مانگے کوئی اسلام ملک کے حکمران ان سے ملاقات نہ کریں۔
پیغمبر اسلام(ص) کا ہر مسلمان پر حق بنتا ہے کہ وہ ان حالات میں وحدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سازشوں کا مقابلہ کریں، یہ شیعہ و سنی نہیں یا عرب و عجم کے خلاف سازش نہیں بلکہ دنیائے اسلام کے خلاف کھلی سازش اور جارحیت ہے۔